ڈاکٹر جاں نثار معین
ظہیرآباد ڈسٹرکٹ سنگاریڈی( نامہ نگار)،27 مئی 2025:تلنگانہ کے ممتاز سماجی کارکن اور فریڈم فائٹر ڈاکٹر جاں نثار معین نے وزیر اعلیٰ جناب انومولا ریونت ریڈی سے مطالبہ کیا ہے کہ ظہیرآباد کو نیشنل انڈسٹریل کاریڈور ڈیولپمنٹ پروگرام (NICDP) کے تحت ایک مکمل اسمارٹ انڈسٹریل سٹی کے طور پر ترقی دی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے وزیر اعلیٰ کے دفتر (CMO) کو تین جامع یادداشتیں ای میل کیں، جن میں شہر کی ہمہ جہتی ترقی سے متعلق اہم تجاویز شامل ہیں۔
ڈاکٹر جاں نثار نے زور دیا کہ شہر کی منصوبہ بند ترقی میں معذورین، خواتین اور معمر شہریوں کی ضروریات کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے ایک جامع، مساوی اور فلاحی شہری ماحول تشکیل دیا جا سکے۔ ماسٹر پلان میں جدید انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل سہولیات، ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ نظام، اور شہری بہبود کے تمام پہلوؤں کو شامل کیا جائے
تاکہ شہر کو صنعتی مرکز مثالی رہائشی سٹی میں تبدیل ہو۔یادداشتوں میں صحت، تعلیم، اقلیتوں کی فلاح و بہبود، صاف ستھرا ماحول، موثر ٹریفک نظام اور بنیادی شہری سہولیات جیسے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کی اپیل کی گئی ہے۔ تاکہ شہر “الٹرا ماڈل اسمارٹ سٹی” کے طور پر تشکیل دیا جائے جو جدید ٹیکنالوجی، شفاف طرزِ حکمرانی اور پائیدار ترقی کے اصولوں پر مبنی ہو، جس سے عوام کو ایک محفوظ، سہولت بھری اور باوقار زندگی میسر آ سکے۔
۱۔ مویشی منڈی کی منتقلی: شہر کے وسط میں واقع مویشی منڈی، جو رہائشی آبادیوں اور حساس مذہبی مقامات جیسے عیدگاہ، مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں کے بالکل قریب ہے، شہری نظم و نسق، ماحولیاتی توازن اور سماجی ہم آہنگی کے اصولوں سے متصادم ہے۔
آئینی و شہری سہولیات کے تحفظ کے تناظر میں اس منڈی کا موجودہ محل وقوع نہ صرف عوامی پریشانی کا سبب ہے بلکہ حفظانِ صحت، مذہبی تقدس، اور شہری حقوق کی خلاف ورزی بھی تصور کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس مویشی منڈی کو شہر سے باہر کسی مناسب مقام پر منتقل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
منڈی کی منتقلی کے ساتھ ساتھ تجویز ہے کہ اسی مقام پر محکمہ حیوانات (Animal Husbandry) کے تحت ایک جدید و منظم مرکز قائم کیا جائے، جہاں جانوروں کی سائنسی بنیادوں پر پرورش، خوراک، صحت کی دیکھ بھال، ویکسینیشن، نسل کشی اور دیگر ویٹرنری سہولیات دستیاب ہوں۔
اس طرح نہ صرف جانوروں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے گا بلکہ مقامی کسانوں اور مویشی پال حضرات کو تربیت اور سہولت بھی میسر آئے گی۔اسی مقام پر ایک جدید ماڈل ’رائتو بازار‘ (کسان بازار) بھی قائم کیا جائے، جو ریاستی زرعی مارکیٹ قوانین اور قومی زرعی پالیسی سے ہم آہنگ ہو۔
’رائتو بازار‘ وہ ماڈل ہے جس میں کسان براہِ راست اپنی زرعی اجناس مثلاً سبزیاں، پھل، اناج، دودھ و دیگر مصنوعات صارفین کو فروخت کرتے ہیں، بغیر کسی بیوپاری یا دلال کے۔ اس سے اشیائے خوردنی مناسب نرخوں پر شہریوں کو دستیاب ہوں گی ، کسان کو اس کی محنت کا معقول اور منصفانہ معاوضہ بھی یقینی ہوگا۔
مویشی منڈی کی شہر سے باہر منتقلی اور جدید ‘رائتو بازار’ کے قیام ماحولیاتی تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔مویشیوں کے فضلے، بدبو اور شور سے پیدا ہونے والی آلودگی ختم ہوگی۔ مذہبی مقامات کے قریب جانوروں کی خرید و فروخت نہ صرف تقدس کے منافی ہے بلکہ شہری احساسات کو بھی مجروح کرتی ہے، اس لیے اس منتقلی سے عبادت گاہوں کا وقار بحال ہوگا۔
صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی یہ فیصلہ انتہائی سودمند ہے، کیوں کہ شہر سے باہر منتقل کی گئی منڈی گندگی، بیماریوں اور آوارہ جانوروں جیسے مسائل سے بچاؤ میں مدد دے گی۔ قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شہری علاقوں میں ایسی سرگرمیاں بلدیاتی قوانین اور نیشنل گرین ٹریبونل (NGT) کی رہنما ہدایات کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں
لہٰذا اس اقدام سے قانونی ہم آہنگی بھی حاصل ہوگی۔ دوسری طرف، رائتو بازار کے قیام سے کسانوں کو اپنی زرعی پیداوار راست صارفین تک پہنچانے کا موقع ملے گا، جس سے دلالوں کا کردار ختم ہوگا، اشیاء مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گی اور کسان کو محنت کا معقول معاوضہ ملے گا۔
یہ منصوبہ شہریوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، تازہ اور معیاری اشیائے خور و نوش مناسب نرخوں پر حاصل کر سکیں گے۔ جدید اینیمل ہسبنڈری مرکز جانوروں کی سائنسی بنیادوں پر نگہداشت، افزائش اور طبی سہولیات کو فروغ دے گا، جس سے مویشی پال حضرات کو بھی تربیت اور تکنیکی مدد حاصل ہوگی۔ یوں یہ منصوبہ صحت، معیشت، ماحول، قانون اور فلاح کے تمام پہلوؤں کو مثبت انداز میں متاثر کرے گا۔
۲علاقائی اسپتال کو جدید ضلعی اسپتال بنائیں: موجودہ علاقائی اسپتال میں روز افزوں مریضوں کا ہجوم، عملے پر بڑھتا ہوا دباؤ اور بنیادی طبی سہولیات کی شدید قلت عوامی صحت کے حق میں ایک سنگین رکاوٹ ہے بلکہ آئینِ ہند کی دفعہ 21 کے تحت فراہم کردہ “حق برائے زندگی” کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
ایسی صورت حال میں ناگزیر ہے کہ اس اسپتال کو فوری طور پر 300 بستروں پر مشتمل ایک جدید ضلعی اسپتال میں تبدیل کیا جائے، تاکہ علاقائی اور اطراف کے دیہی و نیم شہری علاقوں کے لیے بھی ایک مؤثر علاج گاہ بن سکے۔
اس نئے اسپتال میں امراض کی بروقت اور درست تشخیص کے لیے مکمل لیبارٹری سہولیات فراہم کی جائیں، جن میں خون و پیشاب کی جانچ، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، ECG، CT Scan، ڈائلیسز مشینیں، وینٹی لیٹرز، ICU لیب اور ایمرجنسی ایمبولینس خدمات شامل ہوں۔ ساتھ ہی ٹیلی میڈیسن، آن لائن اپوائنٹمنٹس اور اسمارٹ ہاسپٹل مینجمنٹ سسٹم کی شمولیت سے طبی نظام کو عصری ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے تاکہ دور دراز کے مریضوں کو بھی مشاورت و تشخیص کی سہولت میسر آ سکے۔
طبی عملے میں جنرل فزیشن، چائلڈ اسپیشلسٹ، گائناکولوجسٹ، ڈرماٹولوجسٹ، آئی اسپیشلسٹ، اور ENT ماہرین کی موجودگی لازمی قرار دی جائے، تاکہ ہر شعبے میں جامع طبی خدمات فراہم ہو سکیں۔ اسپتال میں 24 گھنٹے ایمرجنسی کی سہولت میسر ہو، جو خاص طور پر حادثات، فالج، دل کے دورے، زچگی، اور دیگر سنگین کیسز کے فوری علاج کے لیے مؤثر ہو۔
زچگی اور تولیدی صحت کی نگہداشت کو مزید مستحکم کیا جائے، جس میں قبل از ولادت (پری نٹال) اور بعد از ولادت (پوسٹ نٹال) کیئر، تجربہ کار گائناکولوجسٹ اور تربیت یافتہ مڈوائفز کی خدمات شامل ہوں۔ بچوں اور خواتین کے لیے حفاظتی ٹیکوں کی مکمل مہم چلائی جائے، تاکہ اگلی نسل بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔
اسپتال میں ٹی بی، ہیپاٹائٹس، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، ایڈز اور ذہنی صحت جیسے امراض کے علاج کے لیے مخصوص مراکز قائم کیے جائیں، جو قومی صحت پالیسیوں کی روح کے مطابق کام کریں۔ مفت یا سبسڈی والی ادویات کی فراہمی کا نظام بھی وضع کیا جائے تاکہ غریب اور نادار مریضوں کا بوجھ کم ہو اور انہیں بڑے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔
یہ جدید ضلعی اسپتال نہ صرف شہریوں کو بنیادی طبی حقوق کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا بلکہ قومی صحت مشن، آیوشمان بھارت، اور ریاستی صحت اسکیموں کے نفاذ کا عملی مرکز بھی بن سکتا ہے۔ عوامی بہبود کی خاطر اس اصلاحی قدم کی فوری ضرورت ہے تاکہ صحت مند معاشرہ اور روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے۔
۳۔اسمارٹ بس ڈپو :موجودہ بس ڈپو کی خستہ حالی اور بسوں کی محدود تعداد کے باعث معذور افراد، خواتین اور بزرگ شہریوں کو سفر میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جو آئینِ ہند کی دفعہ 21 کے تحت دیے گئے باوقار زندگی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
معذور ین کے حقوق (RPWD Act 2016)، خواتین کے تحفظ (POSH Act 2013)، اور بزرگوں کی فلاح و بہبود (Senior Citizens Act 2007) جیسے قوانین بھی شہری سہولیات میں برابری اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں، جن پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک جدید اور مکمل سہولیات سے آراستہ اسمارٹ بس ڈپو کا قیام ناگزیر ہے۔
اس میں معذوروں کے لیے ریمپس، ویل چیئر زون، اور صوتی رہنمائی، خواتین کے لیے مخصوص ویٹنگ ایریاز، صاف بیت الخلاء، اور ڈیجیٹل شناخت کی بنیاد پر ٹکٹنگ، جب کہ بزرگوں کے لیے آرام دہ نشستیں اور فوری طبی امداد کی سہولت شامل ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، بس اسٹیشن میں الیکٹرک بسوں کی فراہمی، سولر انرجی، کوڑا کرکٹ مینجمنٹ، اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات، ماحول دوست پالیسیوں جیسے Environment Protection Act 1986 اور SDG-13 کے مطابق ہوں۔ سی سی ٹی وی نگرانی، آن لائن بکنگ، وائی فائی، اور ڈیجیٹل ڈسپلے جیسے عناصر IT Act 2000 اور ڈیجیٹل انڈیا مشن کا حصہ ہیں، جو ٹرانسپورٹ کو شفاف اور تیز بناتے ہیں۔ مسافروں کی تعداد کے مطابق ٹکٹنگ کیاش اور آن لائن دونوں کی اجازت دیں۔
آرام دہ ویٹنگ ایریاز، صاف پانی، صحت بخش کینٹین، اور جدید سڑک و داخلی راستے نہ صرف شہری سکون کو یقینی بناتے ہیں بلکہ Vehicles Act 2019 اور شہری ٹرانسپورٹ پالیسی کے بھی عین مطابق ہیں۔ یہ تمام سہولیات آئینی و قانونی بنیادوں پر شہریوں کا حق ہیں ۔ایک اسمارٹ، باوقاراور سب کے لیے قابلِ رسائی ٹرانسپورٹ سسٹم کی طرف عملی قدم ہیں، جنہیں ریاستی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرنا چاہیے۔
۴ پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے قائم کریں: ظہیرآباد تعلیمی و تہذیبی اعتبار سے متحرک شہر ہے ۔ یہاں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، تاکہ نوجوان نسل کو محض نصابی تعلیم ہی نہیں، بلکہ عملی مہارت و ہنر کی تربیت بھی میسر آ سکے۔ اس مقصد کے تحت ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو طلبہ کو روزگار سے جڑی مہارتیں سکھائیں، جیسے پولی ٹیکنک، آئی ٹی آئی، اور اسکل ڈیولپمنٹ سینٹرز۔
تعلیمی معیار کو مضبوط کرنے کے لیے اردو میڈیم پس منظر رکھنے والے طلبہ کے لیے جونیئر اور پوسٹ گریجویٹ کالج کے ساتھ ساتھ ڈی ایڈ، بی ایڈ اور ایم ایڈ جیسے ادارے بھی قائم کیے جائیں، تاکہ معیاری تدریسی نظام پروان چڑھے۔ معذورین، خواتین اور اقلیتی طبقات کو معیاری تعلیم سے جوڑنے کے لیے کیندریہ ودیالیہ میں نشستوں کا اضافہ کیا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔
اور ایک مرکزی اسمارٹ لائبریری کا قائم کریں۔، جہاں تمام زبانوں اور طبقات کے لیے مساوی علمی وسائل موجود ہوں اور خصوصی طور پر معذور طلبہ کے لیے رسائی کو آسان بنایا جائے۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی مقصد تعلیمی مساوات، ہنرمندی، خود روزگاری اور سماجی شمولیت کو فروغ دینا ہے، تاکہ اقلیتیں بھی قومی ترقی میں برابر اور باوقار شریک بن سکیں۔
۵۔ماسٹر پلان اورڈیجیٹل انفراسٹرکچر:جب سے شہر کو نیشنل انڈسٹریل کاریڈور ڈیولپمنٹ پروگرام (NICDP) میں شامل کیا گیا ہے، تب سے اس کی منظم، پائیدار اور متوازن ترقی ناگزیر ہو چکی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا جامع ماسٹر پلان تشکیل دیا جائے جو شہری سہولیات، جدید ٹیکنالوجی، ماحولیاتی ہم آہنگی اور عوامی ضروریات کو ایک خوبصورت توازن کے ساتھ یکجا کرے۔ ایک مکمل اسمارٹ انڈسٹریل سٹی، جو ترقی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی، سکون اور سہولت کی علامت بنے۔
مرکزی شاہراہیں کم از کم 200 فٹ چوڑی ہوں، جبکہ ذیلی سڑکیں اور منی کمرشل اپروچز 100 فٹ کی وسعت رکھتی ہوں۔ ان کے دونوں جانب کشادہ فٹ پاتھ، سرسبز گرین بیلٹ، توانائی بچانے والی اسمارٹ لائٹس، سائیکل ٹریک، واضح ٹریفک سائن، سایہ دار درخت، باقاعدہ پارکنگ اسپیس، اور منظم ون وے نظام ہو۔
ہر سڑک مکمل ہو، کوئی کچا حصہ نہ چھوڑا جائے تاکہ گرد و غبار کا خاتمہ ممکن ہو۔ شہر میں رَیپڈ ٹرانزٹ اور بسوں کے لیے مخصوص لینیں متعین کی جائیں تاکہ عوامی ٹرانسپورٹ تیز، آرام دہ اور منظم ہو۔شہر کے ہر رہائشی اور صنعتی سیکٹر میں Mini-Parks کا قیام ہو، جہاں درختوں کی چھاؤں، کھلی فضا اور سادہ تفریحی سہولیات مہیا ہوں۔
چوراہوں کو راونڈ سرکل کی صورت دی جائے تاکہ ٹریفک کا بہاؤ رواں رہے اور حادثات میں کمی آئے۔ سرکاری دفاتر، جیسے عدالت، بینک، ریلوے اسٹیشن اور پوسٹ آفس، میں صفائی، پینے کا صاف پانی، آرام دہ بیٹھنے کا انتظام، کشادہ پارکنگ اور آس پاس سبزہ زار موجود ہوں، تاکہ ہر شہری کو وقار کے ساتھ خدمات حاصل کرنے کا ماحول میسر آئے۔ہر سیکٹر میں ماحولیاتی زون، نیکلس روڈ، اوپن جم اور گرین ایریاز فراہم کیے جائیں، تاکہ شہریوں کو صحت مند زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں۔ ٹرانسپورٹ نظام میں منی بس، ٹیکسی، بائیک شیئرنگ، اور الیکٹرک وہیکل چارجر اسٹیشنز کا جال بچھایا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی کم ہو اور عوام کو جدید سفری سہولیات دستیاب ہوں۔
نکاسیِ آب کے لیے زیر زمین جدید مین ہول نیٹ ورک قائم کیا جائے جو خودکار کنٹرول سسٹم سے لیس ہو۔ پانی کی روانی کو متاثر کیے بغیر، بدبو، غلاظت اور جمع شدہ پانی جیسے مسائل کا مستقل خاتمہ کیا جائے۔ صحت و صفائی کے جامع اقدامات کے تحت کوڑا کرکٹ کی بروقت تلفی، گلیوں کی روزانہ صفائی، اور جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ یقینی بنایا جائے۔ہر بستی میں عوامی باغات اور کھلی جگہیں تعمیر کی جائیں جہاں بچے کھیل سکیں، بزرگ چہل قدمی کریں اور خاندان خوشگوار لمحات گزار سکیں۔
تجارتی مراکز کو ہنگامی راستوں سے الگ رکھا جائے اور کشادہ پارکنگ فراہم کی جائے تاکہ خریداروں کو سہولت اور ہنگامی خدمات کو راہ مل سکے۔ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں تیز رفتار انٹرنیٹ (5G/Wi-Fi)، اسمارٹ سینسرز، IoT ڈیوائسز اور موبائل ایپس فراہم کی جائیں، جو بلنگ، شکایات اور ٹریفک مینجمنٹ جیسے کاموں میں شہریوں کی رہنمائی کریں۔ پانی، پارکنگ اور نکاسیِ آب کا نظام سینسرز سے منسلک ہو تاکہ وسائل کا ضیاع روکا جا سکے۔
ڈیجیٹل گورننس کو فروغ دیا جائے، جہاں شہریوں کو پیدائش سرٹیفکیٹ، ڈرائیونگ لائسنس، شکایات کی سماعت اور دیگر سہولیات آن لائن فراہم کی جائیں۔ شہری شمولیت کے لیے رائے، تجاویز اور شکایات کے لیے انٹرایکٹو پلیٹ فارمز بنائے جائیں۔ ماحولیاتی بہتری کے لیے شجرکاری مہم، فضائی معیار کی نگرانی، اور کوڑا کرکٹ مینجمنٹ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
سیکیورٹی کے تحت چہرہ شناختی نظام، CCTV کیمروں، ہنگامی سروسز، اور خواتین و بچوں کی حفاظت کے لیے مربوط اقدامات کیے جائیں۔ اسمارٹ ہاؤسنگ میں توانائی بچانے والے گھر، خودکار لاکس، اور بلڈنگ مینجمنٹ سسٹمز کو فروغ دیں تاکہ رہائشی سہولت اور تحفظ میسر ہو۔
انڈسٹریل زونز میں ماحول دوست صنعتوں کو فروغ دیا جائے، جہاں ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس، کشادہ پارکنگ، روشن اسٹریٹ لائٹس، نگرانی کے کیمرے اور صفائی کا مربوط نظام ہو۔ نکاسی آب کے ڈرین سسٹم کو مکمل طور پر بند کیا جائے تاکہ گندگی اور بدبو کا خاتمہ ممکن ہو۔
شہر میں ساؤنڈ پولوشن کے خاتمے کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے۔
غیر ضروری ہارن، لاؤڈ اسپیکر، اونچی آواز میں موسیقی اور تعمیراتی مشینوں کے شور کو محدود کیا جائے۔ اسپتال، اسکول اور رہائشی علاقے “سائلنٹ زون” قرار دیے جائیں تاکہ ایک پرامن اور ذہنی سکون سے بھرپور ماحول فراہم ہو۔آخر میں، سڑکوں اور گلیوں میں کھلے جانوروں جیسے گائے، بھینس، بکریاں، آوارہ کتے اور خنزر کے آزادانہ گھومنے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ یہ جانور نہ صرف ٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کی موجودگی شہری صفائی، صحت اور شہر کے جمالیاتی حسن کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔
اقلیتوں کوخصوصی فلاحی اقدامات دیں:اقلیتوں کی فلاح و بہبود کسی بھی جمہوری اور مساوات پر مبنی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔ ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو مذہب، زبان، جنس اور ذات کی بنیاد پر برابری کا حق دیتا ہے، اور آرٹیکل 15 و 16 کے تحت اقلیتوں کو مساوی مواقع اور سماجی تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
اس تناظر میں، اقلیتی طبقات کے لیے مخصوص، سنجیدہ اور مؤثر فلاحی اقدامات کی ضرورت نہایت اہم اور وقت کا تقاضا ہے۔ ظہیرآبدمیں اقلیتوں کی شکایات کی سماعت اور حل کے لیے ایک جامع مرکز قائم کیا جائے جو تعلیمی رہنمائی، اسکالرشپ کی معلومات، ٹریننگ اور روزگار کے مواقع تک رسائی کو یقینی بنائے۔
دور دراز علاقوں میں مقیم اقلیتی طلبہ کو اسکولوں اور کالجوں تک آسان رسائی کے لیے تعلیمی ٹرانسپورٹ اسکیم شروع کی جائے تاکہ تعلیم کسی فاصلے کی محتاج نہ رہے۔ ساتھ ہی، ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم (ایپ / پورٹل) تشکیل دیا جائے جہاں اقلیتوں کو حکومتی اسکیمات، قرض، تربیتی مراکز، ملازمتوں اور دیگر سہولیات کی تازہ ترین معلومات بآسانی دستیاب ہوں۔
کاروباری و تعلیمی ترقی کے لیے تلنگانہ اسٹیٹ مائناریٹی فائننس کارپوریشن (TSMFC) کی شاخوں کا قیام ناگزیر ہے تاکہ سبسڈی پر تعلیمی اور تجارتی قرضے مہیا کیے جا سکیں، جس سے اقلیتی نوجوان خود کفالت کی راہ پر گامزن ہوں۔ اقلیتی خواتین اور بچوں کی صحت کو پیش نظر رکھتے ہوئےMaternity & General Hospital زچہ و بچہ اسپتال اور جنرل اسپتال کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ بنیادی طبی سہولیات ہر طبقے تک یکساں طور پر پہنچ سکیں۔حجاج کرام کی سہولت و رہنمائی کے لیے ایک مناسب منی حج ہاؤس اور فنکشن ہال تعمیر کیا جائے، جہاں تربیتی سیشنز، ویزہ، سفری انتظامات اور دیگر مذہبی امور کو باعزت طریقے سے مکمل کیا جا سکے۔
ایک نیا قبرستان قائم کریں مساجد کی دیکھ بھال کے خرچ، قبرستانوں کی فینسنگ، صفائی، ڈیجیٹل نقشہ بندی اور مستقل دیکھ بھال کا مؤثر انتظام کیا جائے، تاکہ یہ مقامات وقار اور نظم کے ساتھ قائم رہیں۔یہ مطالبات سماجی انصاف کی عملی تعبیر ہیں بلکہ ایک پرامن، مساوی اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی۔ جب اقلیتوں کو مکمل عزت، سہولت اور ترقی کے مواقع فراہم ہو ں گے، تب ہی وہ قومی دھارے میں باوقار شمولیت کے قابل ہوں گے۔
وزیر اعلیٰ سے عوامی اُمیدیں:تلنگانہ فریڈم فائٹرڈاکٹر جاں نثار معین نے وزیر اعلیٰ سے عوامی مطالبات کی روشنی میں درخواست کی ہے کہ ظہیرآباد شہر کو صفائی، سبزہ، سہولت اور سائنسی نظم کا مثالی امتزاج ہو۔ یہ تجویز صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں کرتی بلکہ ایک بہتر طرزِ زندگی، صحت مند ماحول اور منظم شہری نظم و نسق کی جانب قدم بڑھانے کا پیغام دیتی ہے۔
اسمارٹ سڑکیں، جدید ٹرانسپورٹ، صاف پانی، توانائی کے پائیدار ذرائع، سرسبز مقامات اور شہری سہولیات تک مساوی رسائی، وہ عناصر ہیں جو کسی شہر کو حقیقی معنوں میں زندہ اور خول بناتے ہیں تاکہ شہری ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہو۔ عوام کو یقین ہے کہ ان پر عمل درآمد سے شہر کو نہ صرف ماڈل اسمارٹ سٹی کا درجہ حاصل ہوگا-
بلکہ یہاں کے باسیوں کو وہ معیارِ زندگی نصیب ہو گا جس کا خواب وہ برسوں سے دیکھتے آئے ہیں۔یہ مطالبہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک بیدار شعور رکھنے والی عوام کی اجتماعی خواہش ہے—جو اپنے رہنما سے صرف وعدے نہیں، عملی تعمیر کی امید رکھتی ہے۔