غزل
تم نہ آۓ ! تو ، کیا سحر نہ ہوئی ؟۔
ہاں ! مگر چین سے ، بسر نہ ہوئی
´
عشق میں ، جان و دل لٹے ! دونوں
ایک کی ایک کو ، خبر نہ ہوئی
اے ! شب غم کے ، جاگنے والو
کیا کرو گے ؟ اگر ، سحر نہ ہوئی
اپنی رسوائی کا ، خیال اتنا ؟۔
میری بربادی پے ، نظر نہ ہوئی
تم بھی ، اچھے ، رقیب بھی ، اچھے
میں ، برا تھا ! میری ، گزر نہ ہوئی
سارا عالم تھا ! میری میت ، پر
بے خبر ! کیا ؟ تجھے خبر نہ ہوئی
منزل عشق کے تھکے ، غالب
ایسے سوۓ ! کہ ، پھر سحر نہ ہوئی
*****************
بشکریہ گلدستہ گروپ
.
Please follow and like us: