أمّ الكتاب
(نظم ۔قرآن ِ پاک کے اسمائے صفات)
ازل کا چراغِ ہدایت، وہی وہی درسِ الفت، وہی جامِ تسکیں
دلوں کی پیاسوں کی راحت، وہی
وہی “الکتاب”، لوحِ اوّل کا جلوہ
حروفِ یقیں کی ضمانت بنی
حکیمانہ آیات کی زنجیریں
نثارؔ وہ ہیں جو دل سے جان دیتے
کہیں بھی ہوں، اس کا پیغام دیتے
وہی “کلام” ہے، تسکینِ جاں بھی
جسے پڑھ کے دل ہو وقار آفریں
ازل سے ابد تک ہے یہ حرفِ روشن
خدا کا پیامِ مہیّا و مبیں
وہی ہے “وحی”، نورِ ربانی
جو مہتابِ طیبہ پہ نازل ہوا
پگھلتے ہیں پتھر بھی اُس کو سنیں
نظر سے اترے تو دل بن گیا
وہی “الفرقان”، میزانِ حق ہے
کہ باطل کی تہہ سے نکالے سراغ
دھوکے، فریبوں کی زنجیر توڑے
دکھا دے صداقت کا سچا چراغ
وہی “ذکر” ہے، جاگتا دل جسے
ضمیر و خرد میں اجالا کرے
جو معنی کے در کھولتا ہے مسلسل
ہر آیت نئی ایک مرحلہ بنے
وہی “الھُدیٰ”، بے خم و پیچ راہیں
مسافر کو منزل دکھاتا ہوا
جہالت کی شب کو سحر سے بدل دے
زندگی کو بنادے چراغاں ہوا
وہی “النور” – ظلمتوں کا ہدف
کھڑکیاں کھلے دل کی، آنکھیں کھلیں
حقائق کے پردے ہٹاتا چلے
وجود و بصیرت کو مصفا کرے
وہی “رحمت” ہے، دردوں کا سایہ
کہ زخموں پہ مرہم، غموں کا شفا
جسے سسکیوں میں بھی اَمن ملے
جسے چھو کے اشکوں کو صبر آ گیا
وہی “الشفاء” ہے، دلوں کی دوا
جو آشوبِ غم کو سکوں دے نیا
کہ تاریک راتوں میں ہو جیسے مہتاب
جو اشکوں کو دے روشنی کا صلہ
وہی ہے “الحق”، فریبوں کا قاتل
قیامت کی تصویر پیشِ نظر
صداقت کا ایسا بلند آستانہ
کہ جس میں نہ شائبہ، نہ کوئی خطر
وہی “تنزیل” – جو پل پل اُتری
خدا کے عرش سے لفظوں میں نور
ہر آیت میں رازوں کی ندیاں
ہر لفظ میں بہتا بہاروں کا سور
وہی “العزیز”، جو بے مثل دائم
ازل سے ابد تک، وہی حرفِ کن
عدالت کا علمبردار ایسا
کہ دشمن بھی تسلیم کرلے سخن
وہی “الروح” – روحوں کی تازہ روانی
ضمیر و دلوں میں جگائے یقیں
وہی نکتہ، وہی قوتِ فہم
کہ ہر بات ہو جائے عینِ مبیں
یہی ہے کتابِ خدا کی حقیقت
یہی ہے پیامِ کرم کا سرود
یہی لفظ، الفت کا آئینہ ہے
یہی نغمۂ جاں، یہی صوت و عود
تو اے ابنِ آدم! اخلاص سے پڑھ
کہ یہ ہے نجاتوں کی اصل کلید
اسی سے ملی ہے ہمیں زندگی
یہی ہے نثارؔ کی بندگی!
Please follow and like us: