سید تہذیب عابد
اک سمت نہیں پیار ادھر بھی ہے ادھر بھی
لب پہ مگر انکار ادھر بھی ہے ادھر بھی
دونوں ہیں سفیر امن کے مشہور جہاں میں
اور ہاتھوں میں تلوار ادھر بھی ہے ادھر بھی
خیموں میں مخالف کے بھی پہنچا ہے مرا راز
یعنی کہ مرا یار ادھر بھی ہے ادھر بھی
برسوں کا تھا یارانہ سو مل لیتے ہیں رسمن
دل عشق سے بیزار ادھر بھی ہے ادھر
دونوں کے قبیلوں میں عداوت ہے ازل سے
سو لشکرِ جرار ادھر بھی ہے ادھر بھی
For more such snippets, click here:
TimesOfPedia/Poetry&Literature
Please follow and like us: