Ticker news is only displayed on the front page.
[]
Home » Editorial & Articles » پہلگام درندگی دراصل بے گناہ انسان اور انسانیت کا قتل ہے
پہلگام درندگی دراصل بے گناہ انسان اور انسانیت کا قتل ہے

پہلگام درندگی دراصل بے گناہ انسان اور انسانیت کا قتل ہے

Pahalgam

(اشتیاق ایوبی)

ہندوستان کی جنت نظیر ریاست کے خطے پہلگام میں چند حیوانی درندوں کی حیوانی دہشت گردی کے ذریعہ نہایت اندوہناک اور المناک قتل عام کر کے چھبیس یا اٹھائیس معصوم اور بے گناہ انسانوں کی جان لینے اور قتل کرنے کی جس قدر مذمت کی جاۓ کم ہے۔

پہلگام قتل عام میں شہید ہونے والے ہندو ، مسلمان، عیسای سبھی ہیں لیکن یہ سب کے سب بے گناہ انسان تھے لھذا یہ دہشت گردانہ حیوانیت دراصل معصومیت، انسانیت پر حیوانی حملوں ہے اور یہ صرف حملہ نہیں بلکہ انسانیت کا قتل و خون ہوا ہے۔ اس طرح کی جاں سوز درندگی انجام دینے والے یا ایسے درندوں کی پرورش والے ملک و قوم کی انسانی سماج میں نہ کوئ گنجائش ہونی چاہئے اور نہ ہی کوئ جگہ ہونی چاہئے ۔

انسان اور انسانیت کے ان درندہ صفت حیوانی دشمنوں اور ان کے آقاؤں کو ایسی عبرت ناک سزا دی جانی چاہئے کہ آنے والی صدیاں ان کے عبرت ناک انجام کو یاد رکھنے اور سبق لینے کے لئے مجبور نظر آئیں۔
واضح ہو کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی خواہ خوارجی ہو یا داخلی ایک نہایت انسانیت سوز عمل ہے جس کی اسلام اور مسلم معاشرے میں کبھی کوئ جگہ نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی۔

پہلگام واقعہ کے بعد اسے چند نفرتی اور سیاسی عناصر کے مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصب و نظریات کی بنیاد پر ملک کی مسلم اقلیت کے خلاف ایک مسموم اور اشتعال انگیز فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ایسی نفرت انگیزی نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہماری گنگا جمنی تہذیب سے آراستہ ہم آہنگ سماج کے مفاد میں ہے۔

ہم یہ کیوں نہیں محسوس کرتے کہ ہمارا پڑوسی دشمن ملک تو یہی چاہتا ہے کہ ہمارا اتحاد اور ہم آہنگ معاشرہ اس کی سازشوں اور شورشوں کے سبب پارہ یا پاش پاش ہو جاۓ اور اسے تالی بجانے اور انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔

پہلگام کے درد ناک قتل عام نے جو ہمیں درد دیا ہے اس کا مداوا قطعی ناممکن اور ناقابل فراموش ہے لیکن اس المناک واقعہ کا مبنی بر حق دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف مارنے والے سفاک درندے تھے، مرنے والے بے گناہ انسان تھے تو بچانے والے اور بچانے کی کوشش میں درندوں کی رائفل چھین کر جان گنوانے والے اور ہر ممکن مدد فراہم کرنے والے مسلم نما انسان تھے۔

پہلگام درندگی کے نتیجے میں مہلوکین اور زخمیوں کے علاوہ دیگر سیاحوں کی مدد کے لیے وہاں کی مقامی آبادی نے جو مثالی کارنامہ انجام دیا۔ مقامی مسلمانوں کا یہ عمل بھی معراج انسانیت کی زندہ جاوید نظیر ہے جسے قطعی نہ تو نظر انداز کیا جانا چاہئے اور نہ ہی ایسے انسانیت نواز عمل کو نفرتی اور متعصب سیاست کی نذر کیا جانا چاہئے۔

کیا سید عادل حسین نے لوگوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان نہیں گنوایا؟، کیا اسے نظر انداز کرنا ممکن ہے؟ نہیں اور قطعی نہیں
کیا نزاکت نے جس طرح جان کی بازی لگاکر دو بچوں اور بارہ لوگوں کو درندوں کے پنجوں سے بچایا۔ کیا نظر انداز کرنا ممکن ہے؟ ۔ قطعی نہیں۔

حادثے کے شکار مہلوکین اور زخمیوں کو اپنی پیٹھ اور گھوڑی پر لاد کر فوری امداد و علاج کے لئے ہسپتالوں اور محفوظ مقامات تک مقامی کشمیریوں نے پہنچایا، کیا اسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟۔ قطعی نہیں۔

افسوس صد افسوس کہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بی جے پی کارکنان، چند نفرتی سینائیں اور گودی میڈیا مسلسل مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

انہیں انٹیلیجنس کی نہ تو ناکامی یاد ہے نہ حکومت کی لا پرواہی، یاد ہے تو صرف اتنا کہ دہشت گرد مسلمان تھے۔اسی کو مدا بناتے ہوئے وہی پرانا رٹا رٹایا سوال ہوا میں اچھالا جا رہا ہے کہ؛

“ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟”

جب اصل سچ یہ ہے کہ دہشت گرد کا کوئ مذہب نہیں ہوتا اور نہ وہ ہندو ہوتا ہے اور نہ مسلمان ہوتا ہے بلکہ صرف اور صرف درندہ ہوتا ہے

ایک عام ہندوستانی شہری کی طرح عام مسلمان بھی حالیہ حملے پر تکلیف اور غم محسوس کر رہا ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ اس تکلیف کو شاید ہی کوئی اور محسوس کر سکے، کیوں کہ آئے دن مسلمانوں کو مذہب ہی کی بنیاد پر ماب لنچنگ، معاشی بائیکاٹ اور لوٹ پاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے باوجود حکمراں پارٹی کے کارکنان اور بنیاد پرست نظریاتی سنگٹھنوں کا کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرنا صرف اور صرف ان کی اندھی نفرت ہی ہے جسے اس وقت تک چین نہیں پڑتا جب تک مسلمانوں اور اسلام کو دس بیس گالیاں نہ دے دی جائیں۔

نفرتی تاجر یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ بچانے والے بھی مسلمان ہی تھے!!

مشہور کہاوت ہے کہ؛
“مارنے والے سے زیادہ بچانے والا بہتر اور بڑا ہوتا ہے”

پہلگام حملے میں موصولہ اطلاعات کے مطابق تین سے چار یا پانچ دہشت گرد موجود تھے۔تقریباً گھنٹے بھر تک وہاں کوئی سیکورٹی دستہ نہیں پہنچا۔اس درمیان مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی حفاظت کرنے میں جان کی بازی لگا دی

مقامی گائیڈ سید حسین شاہ اسی کوشش میں مارا بھی گیا۔حملے کے فوراً بعد مقامی مسلمانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر زخمیوں اور سیاحوں کو ہسپتال اور محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔

نزاکت حسین نامی ایک کشمیری مسلمان نے تقریباً گیارہ افراد کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ایک کشمیری گائیڈ ایک سیاح بچے کو کمر پر لاد کر کئی سو میٹر تک پیدل دوڑتا رہا۔

بیسرن وادی سے لیکر اپنے گھروں/مسجدوں تک کے دروازے کھول کر سیاحوں کی جان بچانے میں مقامی مسلمانوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن افسوس دو چار دہشت گردوں کا مذہب تلاشنے والوں کو بچانے والے درجنوں مسلمانوں کا مذہب یاد نہیں رہا۔

مارنے والے انہیں خوب یاد ہیں، لیکن بچانے والے نہیں۔اگر دہشت گردوں کی بنیاد پر ان کے مذہب کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے تو بچانے والوں کے مذہب کی تعریف کیوں نہیں؟

اس سوال کا جواب نہ تو ضمیر فروش اور نفرتی میڈیا کے پاس ہے نہ حکومتی کارکنان کے پاس!
سچ تو یہ ہے کہ وہ جواب دینا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ جواب دینے سے ان کے پروپگینڈے کا پردہ چاک ہو جائے گا۔

لاشوں کی آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔اس لیے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی یہ لوگ جھوٹ اور پروپیگنڈہ چلانے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔

علماء و مشائخ نیز مسلم قائدین سنجیدگی سے کام لیں!!

میڈیا ایک خاص قسم کا نریٹیو گڑھنے اور پھیلانے میں لگا ہے۔جذباتیت کے سہارے حکومت اور انٹیلی جنس کی جواب دہی پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش ہے۔اس لیے دیش بھکتی/انتقام جیسے لفظوں کا سہار لیکر مسلمانوں پر احساس شرمندگی لادنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اس لیے مشائخ اور ذمہ دار علما کو چاہیے کہ وہ میڈیائی پروپیگنڈے کا اثر قبول نہ کریں اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ حالیہ حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اغیار کے مذہبی تعصب اور حکومت کی جواب دہی پر بھی بات کریں۔گودی میڈیا کی دو رخی پالیسی کو بے نقاب کرنے میں کوئی جھجک نہ دکھائیں۔

سچ یہ ہے کہ ہمیں درندہ صفت دہشت گردوں سے رتی بھر بھی ہمدردی نہیں۔جس طرح انہوں نے مذہب کے نام پر قتل عام کیا ہے ویسی ہی قتل و غارت گری گذشتہ دس سالوں سے مسلمان بھی جھیل رہے ہیں۔

آر پی ایف کے جوان چیتن سنگھ نے نام پوچھ کر ہی تین مسلمانوں کو گولی سے اڑا دیا تھا۔پہلو خان، اخلاق احمد، رکبر خان، تبریز انصاری اور حافظ جنید جیسے سیکڑوں مسلمان صرف مذہبی تعصب کی بنیاد پر ہی مارے گیے ہیں-مذہبی غنڈوں کی بھیڑ میں ایک بھی شخص انہیں بچانے والا نہیں تھا

لیکن پہلگام میں مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی جان بچانے کے لیے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی قربانی تک دے دی ہے۔

ان برمحل وقوع اور حقائق کو ٹھوس اور سنجیدہ انداز میں پیش امن و سلامتی کے خواہاں عناصر اور معتدل طبقات تک پہنچا کر امن و سکون یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

ہم سب اپنے نپے تلے اور ہم آہنگ انداز میں بات کریں۔ مرعوب نہ ہوں اور سابقہ پلوامہ حملے و دیگر درندہ صفت کاروائیوں کی مذمتی مہم کی طرح اس کی بھی ہر سمت سے مذمت درکار ہے۔

ہرگز ہرگز کسی قسم کی نازیبا جذباتیت میں بہہ کر جگ ہنسائی کا سامان نہ بنیں۔ مسلمان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پر پچیس کروڑ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم ہر گز قابل قبول نہیں ۔

Please follow and like us:
READ ALSO  Worried Faces in Kashmir

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

13 − 12 =

You may use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>

Scroll To Top
error

Enjoy our portal? Please spread the word :)