پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی مدت میں صرف چھ سال باقی ہیں جبکہ اس سمت میں عالمگیر اقدامات تشویشناک طور پر ناکافی ہیں اور محض 17 فیصد اہداف پر پیش رفت کو ہی تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ایک تہائی اہداف پر پیش رفت یا تو تھم چکی ہے یا ان کی صورتحال میں پہلے سے زیادہ بگاڑ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق 2024 کی سالانہ رپورٹ (ایس ڈی جی رپورٹ کارڈ) پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا پائیدار ترقی کے لیے اہداف کو بروقت حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ لوگوں کو تحفظ دینے، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے اور بین الاقوامی مالیات کو مضبوط بنانے میں ناکامی سے ترقی کو نقصان ہو رہا ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے اقدامات کی رفتار بڑھانا ہو گی اور دنیا کے پاس ضائع کرنے کے لیے مزید وقت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے 2015 میں ان اہداف کی منظوری دی تھی جن کا بنیادی مقصد لوگوں اور کرہ ارض کے لیے امن و خوشحالی لانا ہے۔
پائیدار ترقی میں رکاوٹیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ۔19 وبا کے اثرات، بڑھتے ہوئے تنازعات، ارضی سیاسی تناؤ اور بدترین صورت اختیار کرتی موسمیاتی ابتری ان اہداف کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔
2022 میں 2019 کے مقابلے میں مزید دو کروڑ 30 لاکھ لوگ شدید غربت کا شکار ہو گئے جبکہ مزید 100 ملین کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں، گزشتہ برس مسلح تنازعات میں شہریوں کی اموات میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ 2023 اب تک کا گرم ترین سال تھا جب عالمی حدت میں اضافہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد تک پہنچ گیا۔
رپورٹ کے نتائج
‘ایس ڈی جی’ رپورٹ میں کڑے معاشی مسائل کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دنیا کے انتہائی کمزور ممالک میں سے نصف کے فی کس جی ڈی پی میں ترقی دولت مند معیشتوں کے مقابلے میں سست رفتار ہے۔ 2022 میں تقریباً 60 فیصد ممالک میں خوراک کی قیمتیں غیرمعمولی طور سے بلند رہیں جس سے بھوک اور غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں صنفی عدم مساوات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ زیرجائزہ رہنے والے 120 ممالک میں سے 55 فیصد میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے قوانین موجود نہیں ہیں۔
تعلیمی شعبے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں صرف 58 فیصد طلبہ کو ہی پرائمری سکول کی تعلیم کے بعد کم از کم حد تک پڑھنا آتا ہے۔ اگرچہ 2023 میں بیروزگاری کی عالمی شرح اب تک کی کم ترین سطح پر رہی لیکن ہر جگہ باوقار کام کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں تاحال برقرار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بہتری دیکھنے کو ملی جہاں پانچ سال کے دوران 8.1 فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی ہوئی۔ ٹیکنالوجی کے شعبے نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا اور دنیا کی 95 فیصد آبادی تک موبائل براڈ بینڈ 3جی یا اس سے زیادہ) کی رسائی ہوئی جبکہ 2015 میں اس کی رسائی دنیا کی 78 فیصد آبادی تک ہی تھی۔
فوری ترجیحات
انتونیو گوتیرش نے بین الاقوامی تعاون کی فوری ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو 2030 تک غربت کے خاتمے، کرہ ارض کو تحفظ دینے اور کسی کو پیچھے نہ چھوڑنے کے اہداف پر کاربند رہنا ہو گا۔
رپورٹ میں مالیاتی خسارے سے نمٹنے کے لیے اہم ترجیحات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ‘ایس ڈی جی’ پر سرمایہ کاری کے لیے سالانہ 4 ٹریلین ڈالر کی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ مالی وسائل اور گنجائش میں تیزی سے اضافہ کرنا اور ان وسائل کے حصول کی خاطر عالمی مالیاتی نطام میں اصلاحات لانا بہت ضروری ہے۔
مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ مئی 2024 تک تقریباً 120 ملین لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے تھے جبکہ 2022 اور 2023 کے درمیان مسلح تنازعات میں شہریوں کے نقصان میں 72 فیصد اضافہ ہوا۔ اس طرح امن کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اس کے ساتھ عملدرآمدی اقدامات میں اضافے کی بھی اشد ضرورت ہے جبکہ خوراک، توانائی، سماجی تحفظ اور ڈیجیٹل ربط جیسے اہم شعبوں میں ترقی کے لیے موثر شراکتیں ناگزیر ہیں۔
تجدید عمل کا موقع
یہ رپورٹ پائیدار ترقی پر اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کے اجلاس سے پہلے آئی ہے جو 8 تا 17 جولائی نیویارک میں منعقد ہو گا۔
اقوام محدہ کی معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک) کے زیراہتمام ہونے والے اس فورم میں غربت کے خاتمے (پائیدار ترقی کا پہلا ہدف)، غذائی قلت پر قابو پانے (دوسرا ہدف)، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات (13واں ہدف)، پرامن و مشمولہ معاشروں کے قیام (16واں ہدف) اور عملدرآمدی ذرائع (17واں ہدف) پر اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائےگا۔
علاوہ ازیں، ستمبر میں ہونے والی کانفرنس برائے مستقبل ان اہداف کے حصول کی کوششوں کو ازسرنو منظم کرنے کا اہم موقع ہو گا۔ اس کانفرنس کا مقصد بہت سے ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرنے والے قرض کے بحران سے نمٹنا اور عالمی مالیاتی نطام میں اصلاحات کی فوری ضرورت کا جائزہ لینا ہے۔
…………………………………………