کیا لوک سبھا اسپیکر کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے؟
ہندوستان کا پارلیمانی نظام: برطانیہ کے نظام سے متاثر
ہندوستان کا پارلیمانی نظام برطانیہ کے نظام پر مبنی ہے، جسے ویسٹ منسٹر فارم آف گورنمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں دو ایوان ہوتے ہیں: ایوان بالا اور ایوان زیریں۔
برطانیہ میں براہ راست منتخب ہونے والے ممبران پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز کے ممبر ہوتے ہیں، جنہیں ایم پی یا کامنرز کہا جاتا ہے۔ ایوان بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز میں بالواسطہ منتخب ممبران ہوتے ہیں، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارنامے انجام دیتے ہیں یا گراں قدر خدمات کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔
برطانیہ ایک آئینی شہنشاہیت ہے، جہاں بادشاہ یا ملکہ علامتی سربراہ ہوتے ہیں اور ملک کے نظام میں براہ راست مداخلت نہیں کرتے۔ تمام فیصلے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، ہندوستان ایک جمہوریہ ہے، جہاں کا سربراہ صدر جمہوریہ منتخب ہوتا ہے۔ اگرچہ صدر کا انتخاب براہ راست نہیں ہوتا، بلکہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے ممبران انہیں منتخب کرتے ہیں۔
برطانیہ میں اسپیکر کا عہدہ بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ توقع کی جاتی ہے کہ اسپیکر غیر جانبدار ہو کر فیصلے کرے گا۔ برطانیہ میں روایت ہے کہ اسپیکر کو بیک بنچر یعنی پچھلی صف میں بیٹھنے والا جونئر ایم پی مقرر کیا جاتا ہے، تاکہ وہ غیر متنازعہ ہو کر اپنے فرائض انجام دے سکے۔ اسپیکر کے انتخاب کے وقت اس عہدے کے لیے امیدوار کو تقریباً زبردستی کرسی تک پہنچایا جاتا ہے، کیونکہ یہ ذمہ داری نبھانا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
ہندوستان میں 18ویں لوک سبھا کے انتخابات
18ویں لوک سبھا کے انتخابات میں نوک جھونک اور تلخیاں دیکھنے کو ملیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ لوک سبھا کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ ہندوستان کا سیاسی درجہ حرارت بلند رہے گا۔ نئی لوک سبھا کے معرض وجود میں آتے ہی اندازہ ہو گیا کہ ہر قدم، ہر مرحلے، اور ہر فیصلے پر خوب سیاست ہوگی۔ اپوزیشن اور حکمراں اتحاد کے درمیان تلواریں کھنچی ہوئی نظر آئیں۔
پہلا مرحلہ پروٹیم اسپیکر کا تھا، جس میں بی جے پی کے سات مرتبہ کے ایم پی کو پروٹیم اسپیکر مقرر کیا گیا۔ اپوزیشن نے اس تقرری کو ماضی کی روایات کے خلاف قرار دیا۔ پروٹیم اسپیکر کا کام صرف نومنتخب ممبران پارلیمنٹ کو حلف دلانا ہوتا ہے۔ اب اسپیکر کے انتخاب پر ملک کی سیاست مرکوز ہے۔ حکمراں جماعت کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے اسپیکر کا عہدہ ان کا حق ہے، جبکہ اپوزیشن اتفاق رائے سے اسپیکر کے انتخاب اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر اپنے کسی لیڈر کی تقرری پر زور دے رہی ہے۔
اسپیکر کا کردار اور اہمیت
پارلیمنٹ کی کارروائی، مختلف وزارتوں کی کمیٹیوں کا قیام، اور پارلیمانی اجلاس کے دوران اسپیکر کی صوابدیدی فیصلے حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پچھلی لوک سبھا میں حکومت نے اپوزیشن کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی فیصلے کیے، جس پر اپوزیشن ناخوش تھی۔ اپوزیشن لیڈروں کا الزام ہے کہ پارلیمنٹ کے اصولوں کو نظر انداز کرکے اپوزیشن کی آواز کو دبایا گیا۔
نئی لوک سبھا میں اسپیکر کا انتخاب
نئی لوک سبھا میں اسپیکر کے عہدے کے لیے زبردست کھینچ تان جاری ہے۔ بی جے پی کو ایوان میں مکمل اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسے مختلف عہدیداروں کی ضرورت ہوگی جو مشکل وقت میں کام آسکیں۔ اسپیکر کے فیصلے حکومت بنانے اور گرانے میں اہمیت رکھتے ہیں، اور اسی وجہ سے اسپیکر کا عہدہ اس وقت بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
…………………………………………………………