[]
Home » News » ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو دیا سخت حکم
ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو دیا سخت حکم

ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو دیا سخت حکم

پریس ریلیز

مسلم اور عیسائی شادیوں کے رجسٹریشن کے معاملے میں عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم : ڈاکٹر خواجہ ایم شاہد

دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو لازمی میرج رجسٹریشن آرڈر ۲۰۱۴ کے تحت مسلم اور عیسائی شادیوں سمیت شادیوں کے آن لائن رجسٹریشن کو فعال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے.

 آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ (اےآئ ای ایم) کے صدر اور مانو یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ ایم شاہد نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، انہوں نے اس فیصلے کو ملک کے جمہوری سماجی تانے بانے کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر سال ہماری تنظیم (اےآئ ای ایم) کی قانونی ٹیم جسمیں سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ اسلم احمد، دہلی ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ رئیس احمد اور دیگر قانونی ماہرین شامل ہیں، نے ایسے مسائل پر بیداری کے پروگرام منعقد کرتی رہتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس سنجیو نرولا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوام کے لیے آسان انتظامی عمل کو یقینی بنانے کے لیے پورٹل پر اس طرح کے رجسٹریشن کا آپشن فراہم کرنا ضروری تھا۔ لیکن ۲۰۲۱ میں شادیوں کے بارے میں حکام کی طرف سے پہلے کی یقین دہانیوں کے باوجود، دہلی (شادی کا لازمی رجسٹریشن) آرڈر ۲۰۱۴ کے تحت ہونے والی شادیوں کے رجسٹریشن کے لیے آن لائن یا آف لائن، خاص طور پر مسلم پرسنل لا یا کرسچن پرسنل لاء کے تحت کوئی متبادل نہیں دیا گیا۔ جسے عدالت نے ”نظام کی ناکامی‘‘ قرار دیا۔

آپ کو بتادیں کہ عدالت نے یہ حکم ۱۹۹۵ میں شادی کرنے والے ایک مسلمان جوڑے کے اپنے مذہب کے تحت شادی کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنے پر عدالت سے رجوع کرنے والے اس مسئلے کے حل کے طور پر دیا ہے ۔

خواجہ شاہد نے اپنے پریس بیان میں بتایا کہ یہ مسئلہ ان کے اپنے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جب ان کے بیٹے کو بیرون ملک جانے کی ضرورت پڑی تو انہیں دہلی حکومت کے میرج رجسٹریشن پورٹل پر دستیاب آپشنز کا انتخاب کرنا پڑا جس میں صرف ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میرج ایکٹ کے آپشنز دستیاب تھے اور ان کے بیٹے کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا پڑا ۔

شاہد نے مزید کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴ کے تحت مسلم اور عیسائی شادیوں کے رجسٹریشن کی وجہ سے ان خاندانوں کو مستقبل میں ان کے ذاتی قوانین کے تحت جائیداد کی تقسیم وغیرہ جیسے معاملات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

لہذا اب امید ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ پورٹل پر ان لا ئن آپشن کو اپ ڈیٹ کرکے اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں مد دگار اور ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ لیکن ایک ضروری سوال یہ بھی ہے کہ پرانے رجسٹریشن کا اب کیا ہوگا؟ کیا ان لوگوں کو دوبارہ رجسٹر کرنا پڑے گا؟ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر دلی

خواجہ شاہد نے مزید کہا کہ مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں ہیں جنہیں ایسے اہم فلاحی کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں ایسا کام نہیں ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کو لے لیں جو دہلی میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کے اتنے اہم قانونی مسئلے پر کوئی کام نہیں کر سکا۔

انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کو مسلمانوں کے اس جیسے کئ اور قانونی وسماجی مدعوں کو حل کرنے کے لۓ سامنے آنا ہوگا . اور اس قدم سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کی بھی بڑی خدمت کی جا سکےگی .

Please follow and like us:
READ ALSO  Ministry of WCD organizes National Conference on Skilling in Non- Traditional Livelihood for Girls “Betiyan Bane Kushal”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

two × three =

You may use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>

Scroll To Top
error

Enjoy our portal? Please spread the word :)