[]
Home » News » وہ کون سے قانون ہیں جو آج ہندستان میں لاگو ہو گۓ
وہ کون سے قانون ہیں جو آج  ہندستان میں لاگو ہو گۓ

وہ کون سے قانون ہیں جو آج ہندستان میں لاگو ہو گۓ

پریس ریلیز

ایڈوکیٹ رئیس احمد

بھارت میں ۳نئے فوجداری قوانین نافذ،پہلا مقدمہ ریھڑی والے کے خلاف درج

کسی بھی قانون کو نافذ کرنے سے پہلے قواعد و ضوابط کا نافذ ہونا ضروری ہے۔ ایڈوکیٹ رئیس احمد

نئی دہلی​ یکم جولائی ۲۰۲۴ سے بھارت میں تین نئے فوجداری قوانین نافذ کیے گئے۔ جس کے بعد دہلی کے کملا مارکیٹ تھانے میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی۔ جسے ایک پولیس افسر کی شکایت کی بنیاد پر Bںصص کے نئے متعارف کردہ قانون کی دفعہ ۱۷۳ اور Bںص کی دفعہ ۲۵۸ کے تحت درج کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ان تینوں مجرمانہ کاڑوائیوں کو انڈین پینل کوڈ (IPCء۱۸۶۰) کی جگہ بھارتیہ نیای سہینتا (Bںص)، کوڈ آف کریمنل پروسیجر (۱۹۷۳ءCرPC) کی جگہ بھارتیہ نگرک سرکشہ سہینتا (Bںصص) اورانڈین ایویڈینس ایکٹ ۱۸۷۲ کی جگہ بھارتیہ ساکشی ادھینیم کو نافذ کیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ جب سے یہ تینوں فوجداری قوانین بنائے سے، پارلیمنٹ میں منظور ہوئے، اور اب ان کے نفاذ تک ملک بھر میں کافی سنجیدہ بحث چل رہی تھی۔

جو اب بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے. جہاں حکومت پر یہ الزامات بھی ہیں کہ حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کو ایوان سے باہر کر کے پارلیمنٹ میں من مانی سے یہ قوانین منظور کرائے گئے ہیں۔

جہاں انصاف کے بعض ماہرین اسے اور بنا تیاری کے جلد بازی کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں وہیں حکمران جماعت کے ان فیصلوں سے مطمعین رہنے والے لوگ اس کا خیر مقدم کر رہے ہے۔

انسانی حقوق کے بیشتر کارکنان اور تنظیمیں ان قوانین کو جابرانہ اور پولیس کی بربریت کو فروغ دینے والا قرار دے رہی ہیں۔ اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے والے میڈیا گھرانوں پر لگام ڈالنے کے لیے قانون پاس ہونا چاہیے تھے ۔ حکومت کی کوشش ہوتی کہ ملک کا پیسہ واپس لا کر ملک کا پیسہ لوٹنے والوں کو سزا دی جائےوالے قوانین پاس کے جاتے ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

READ ALSO  राष्ट्रपति 9 जून को दिलाएंगी पद और गोपनीयता की शपथ

اس کے پیش نظر دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق رکن اور دہلی ہائی کورٹ کے وکیل رئیس احمد کا کہنا ہے کہ جہاں اب ان قوانین کے تحت صفر ایف آئی آر، پولیس کو آن لائن شکایت شامل کرکے کچھ خوبیوں کو بڑھایا گیا ہیں وہیں ایس ایم ایس کے ذریعے سمن بھیجے کو تعمیل مانا جانا حیران کن ہیں۔ جبکہ ملک کی نصف آبادی ابھی تک ان سہولیات یا تکنیکی چیزوں سے کوسوں دور ہے۔ ایسے میں ان پسماندہ طبقات کو انصاف فراہم کرنا مشکل ہوگا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جہاں ان قوانین میں لنچنگ کے لیے سزا کا بندوبست کیا گیا ہے، وہیں پولیس کو کسی بھی عام شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر کاڑوائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں سپریم کورٹ نے اپنے حکم سے ملزم کو ہتھکڑی لگانے سے منع کیا ہوا تھا، اب نئے قانون Bںصص کی دفعہ ۴۳(۳) کے تحت پولیس ملزم کو بھی ہتھکڑی لگا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ پولیس حراست اور حراست کے حوالے سے بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اب ملزم کی پولیس حراست ۳۰ یا ۶۰ دن کے اندر دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ کس قسم کا معاملہ ہے۔ یہ ضروری ہے کیونکہ جب آپ کسی ملزم کو گرفتار کرتے ہیں اور اسے دوسرے ملزم سے پوچھ گچھ کرنی ہوتی ہے تو وہ دستیاب نہیں ہوتے کیونکہ آپ کو ملزم پولیس کی تحویل میں نہیں ملتا۔ اس تبدیلی سے انہیں دوبارہ پولیس کی تحویل میں لے سکتے ہیں۔

READ ALSO  That sinking feeling: Beijing dropping by up to 4 inches a year, study shows

ان قوانین میں خواتین اور بچوں سے متعلق جرائم کے لیے پہلے سے زیادہ سخت سزا کی دفعات موجود ہیں۔ یہی نہیں کئی جرائم کے لیے الگ الگ قانون بھی بنائے گئے ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ پرانے قوانین کو نئے روپ میں پیش کیا گیا ہے، اسی لیے اپوزیشن بھی اسے کٹ کاپی پیسٹ کہہ کر حکومت پر الزامات لگا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ آج جب ہم نے اپنے کچھ ساتھی ہندی بولنے والے صوبوں کے وکیلوں سے بات کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہندی بولنے والی ریاستوں میں ان قوانین کی مکمل معلومات کی تربیت وغیرہ کی کمی کی وجہ سے ٹریننگ بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔

ایسے میں دوسریزبان بولنے والی ریاستوں جیسے تیلگو، تمل ملیالم، بنگالی پنجابی، یا شمال مشرقی ریاستوں میں کتنی پریشانی ہوگی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جس کی وجہ سے تمل ناڈو اور بنگال کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ کئی اپوزیشن اور ایڈوکیٹ بار ایسوسی ایشنز نے بھی اس کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔

اس لیے حکومت کو سب سے پہلے تمام ریاستوں کو ان کی زبان کے مطابق تربیت دے کر قواعد و ضوابط (معیاری آپریٹنگ طریقہ کار) کو لاگو کرنا چاہیے تھا۔ اگر ان قوانین پر عمل ہوتا تو شاید سرکار کو اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

Please follow and like us:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

thirteen − 13 =

You may use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>

Scroll To Top
error

Enjoy our portal? Please spread the word :)