پریس ریلیز

سالیسٹر جنرل آف انڈیا کے ذریعہ ایک بار پھر وقت طلب پر کرنے پر عدالت نے ناراضگی کا اظہار کیا
ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس اہم معاملہ میں اپنا حتمی فیصلہ صادرکرے:مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی 2ستمبر2021 کروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پرآج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنر ل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتہ کی جانب سے دو ہفتوں کاوقت طلب کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناراضگی ظاہر کی اور انہیں بتایا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق آپ پہلے ہی چار مرتبہ وقت طلب کرچکے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے کہا کہ انہیں مزید دستاویزات داخل کرنی ہیں جس کے لئے وقت درکار ہے
۔چیف جسٹس آف انڈیا وی رمنا کی سربراہی والی تین رکنی بیچ جس میں جسٹس سریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا شامل ہیں کوسالسٹرجنرل تشارمہتہ نے مطلع کیاکہ حکومت نے اس ضمن میں کچھ پیش رفت کی ہے اور قوانین مرتب کیئے ہیں جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اگر آپ یو ٹیوب چینل دیکھو گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک منٹ میں کیا کیا دکھایا جاتا ہے، کیا آپ کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جو اس پر روک لگا سکے یا اس کی فوری جانچ کرسکے؟ چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ایڈوکیٹ تشار مہتہ نے کہا کہ حکومت نے میکانزم بنایا ہے اور قوانین میں ترمیم بھی کی ہے جس پر جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنایا گیا میکانزم کتنا کارگر ثابت ہوگا اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہوگا کیونکہ آج بھی نفرت پر مبنی رپورٹنگ بند نہیں ہوئی ہے۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیئے کچھ مخصوص چینلوں نے محاز کھولا ہوا ہے جن پر قدغن لگانا ضروری ہے اور کرونا کے شروعاتی دنوں میں مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے چینلوں پر کارروائی کرنا ہوگی تاکہ وہ مستقبل میں پھر ایسی حرکت نہ کریں۔ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت سے مزیدکہا کہ حکومت کی جانب سے کیبل ٹیلی ویژن نیٹورک قانون میں ترمیم کی گئی ہے لہذا انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اس ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کرسکیں، ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے کی درخواست کو چیف جسٹس آف انڈیا نے منظور کرلیا اور چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ عمل میں آئی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ محمد طاہرحکیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ عیسیٰ حکیم و دیگر وکلاء موجود تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر عدالت نے مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا تھاجس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل روکا نہیں جاسکتاالبتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تواس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا تھا کہ لائیو ٹی وی شو اور ٹی وی پر بولنے سے کسی کو روکنے کا مرکزی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ مرکزی حکومت نے چند ٹی وی چینلوں پر ایک ہفتہ تک خبریں اور پروگرام نشر کرنے کی پابندی لگائی تھی۔ واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے داخل پٹیشن پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظی مدعی بنے ہیں جس پر ابتک متعدد سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ سے کرونا کی وجہ سے سماعت نہیں ہوسکی تھی اور اسی درمیان سابق چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے سبکدوش ہوگئے تھے۔
اب جبکہ حالات میں سدھار ہورہا ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اپنا چارج لے لیا ہے عدالت سے پٹیشن پر حتمی بحث کرنے کی گذارش کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی لیکن حسب سابق حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت سے وقت طلب کیا۔تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبد نام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا پٹیشن داخل کرنے کے بعد اور صارفین کی شکایت پر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی (NBSA) نے تین چینلوں ٹائمس ناؤ، ٹی وی 18اورسوارنا نیوز چینل پر ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھاجبکہ زی نیوز، آج تک اور دیگر چینلوں نے معافی مانگ تھی۔
آج کی عدالتی کارروائی پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا چینلوں میں نفرت پر مبنی رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگانے اور جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچاہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کئی معاملوں میں عدالتوں کے ذریعہ سرزنش کے بعد بھی میڈیا نے اپنا رویہ نہیں بدلاہے بلکہ پچھلے کچھ عرصہ سے ان کی اشتعال انگیز رپورٹنگ میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوچکاہے اس سلسلہ میں ہم باربار حکومت سے اپیل کرچکے ہیں کہ وہ ان بے لگام اور سرکش ٹی وی چینلوں پر لگام کسے مگر اب تک کچھ نہیں ہوا اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں اپنا حتمی فیصلہ صادرکرے۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند
Please follow and like us: